Happy Pakistani Children

After every storm the sun will smile; for every problem there is a solution, and the soul’s indefeasible duty is to be of  good cheer.– William R. Alger

Smile, it’s a language which we all understand.

A warm smile is the universal language of kindness.–William Arthur

Pakistan: Thar desert situation

Image

صحرائے تھر میں قحط اور خشک سالی
اعداد و شمار کے مطابق تھر میں گیارہ لاکھ لوگ خشک سالی سے متاثر ہوئے
جبکہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں

پاکستان کے صوبہ سندھ میں قدرتی آفات سے متاثر افراد کی اعداد و شمار کے مطابق صحرائی علاقے تھر میں گیارہ لاکھ لوگ خشک سالی سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔سپریم کورٹ نے حکومت سندھ سے تھر میں قحط سالی سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے جس میں موجودہ صورت حال کے ذمہ داران اور اس کی وجوہات کے تعین کے علاوہ صوبائی حکومت کی طرف سے کی گئی امدادی کارروائیوں کی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پیر کے روز تھر میں قحط سالی سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی جس میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدل فاتح ملک پیش ہوئے۔انھوں نے عدالت میں تھر کی صورتِ حال پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں کھانے پینے کی اشیا اور دیگر سامان بھجوا دیا گیا ہے، جبکہ وزیرِ اعلیٰ سندھ نے اوروزیرِ اعظم نے علاقے کا دورہ کیا۔انھوں نے کہا کہ جب تک بچوں کی حالت انتہائی خراب نہیں ہوتی، والدین بچوں کا علاج نہیں کرواتے۔ انھوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ گذشتہ تین ماہ میں 60 بچے ہلاک ہوئے ہیں، تاہم، وجہ قحط سالی نہیں بلکہ نمونیا اور دیگر بیماریاں تھیں۔اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے پوچھا کہ کیا وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ بچوں کی ہلاکت کے ذمہ دار والدین ہیں؟ لوگوں کو وزیرِ اعلیٰ اور وزیرِ اعظم کی نہیں، کھانے کی ضرورت ہے۔صحت کے عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ تھر میں حالیہ اموات میں اضافے کا تعلق عوام کا صحت کی سہولتوں تک عدم رسائی سے ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنے جائزہ رپورٹ میںبتایاہے کہ تھر میں قریبی صحت مرکز تک پہنچنے کے لیے ایک ہزار سے چار ہزار رپے درکار ہوتے ہیں اور یہ سفر دو سے چار گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔یاد رہے کہ سندھ حکومت یہ شکایت کرتی رہی ہے کہ لوگ ہپستالوں تک نہیں آتے، جس کی وجہ سے وہ صحت کی سہولیات سے محروم رہتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے فقدان کی وجہ سے لوگ ایمرجنسی میں ٹیکسی میں سفر کرتے ہیں۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق تھر میں ایک ضلعی ہسپتال، تین تحصیل ہسپتال، دو دیہی صحت مرکز، 34 بنیادی صحت مرکز، دو ماں اور بچہ صحت مرکز اور 82 ڈسپینسریاں موجود ہیں، جن میں 29 اسپیشلسٹ، 165 ڈاکٹروں جن میں ستائیس لیڈی ڈاکٹروں کی آسامیاں خالی ہیں، اسی طرح تین نرسنگ اسٹاف، 50 لیڈی ہیلتھ وزیٹرز اور 26 پیرامیڈیکل اسٹاف کی آسامیاں خالی ہیں
صحت کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ تھر میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق 67 بچے ہلاک ہوئے ہیں لیکن یہ اعداد و شمار سرکاری صحت مراکز کے تحت محدود ہیں، سرکاری نظام سے باہر اموات ریکارڈ نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے اموات کی تعداد زیادہ ہوسکتی ہے۔ایک اوررپورٹ کے مطابق تھر میں بچوں اور حاملہ خواتین میں بڑے پیمانے پر غذائی قلت موجود ہے، جس سے انفیکشن اور کئی بیماریوں میں جکڑنے کے خدشات موجود ہیں۔سول ہسپتال مٹھی میں ویسے تو سرکاری طور پر تمام ہی امراض کا علاج ہوتا ہے، لیکن موجودہ وقت ایسا لگتا ہے کہ یہ ہسپتال ہی بچوں کا ہے، یہ پورے ضلعے کا واحد سرکاری ہسپتال ہے جہاں لیڈی ڈاکٹر اور بچوں کے امراض کے ماہر موجود ہیں۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کہیں دوسرے ہسپتال میں مریضوں کے داخلے کی سہولت دستیاب نہیں، اسی لیے بھی تمام مریض یہاں کا رخ کر رہے ہیں، جہاں عام دنوں میں او پی ڈی سو سوا ہوتی تھی وہاں پانچ سو مریض پہنچ چکے ہیں۔سندھ حکومت نے حالیہ بحران کے پیشِ نظر علاقے میں گندم کی ایک لاکھ بیس ہزار بوریاں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ محکمہ خوراک کے ضلعی کنٹرولر محمد حنیف ابڑو نے بتایا ہے کہ وہ اس وقت تک 33 ہزار 300 بوریاں گندم تقسیم کرچکے ہیں، جبکہ ستائیس ہزار بوریاں گوداموں میں موجود ہیں۔یاد رہے کہ اس سے پہلے آٹھ ماہ میں گندم کی ساٹھ ہزار بوریاں تقسیم نہیں ہوسکی تھیں۔ قحط سالی کی اطلاعات کے بعد حکومت نے مزید ساٹھ ہزار بوریاں بھیجنے کا اعلان کیا تھا،
لیکن خود حکومتی اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ابھی تک اعلانیہ گندم پہنچ نہیں سکی ہے۔غیر سرکاری تنظیمیں صرف گندم کی تقسیم کی مخالفت کر رہی ہیں۔ اسکوپ نامی تنظیم کے مقامی رہنما بھارو مل کا کہنا ہے کہ سیلاب اور زلزلے میں جس طرح لوگوں کو حکومت آٹا، دال، چاول، گھی فراہم کرتی ہے یہاں بھی ایسے ہی پیکج کی ضرورت ہے۔ ’لوگ روٹی کس سے کھائیں گے، حکومت کو اس کا بھی خیال کرنا چاہیے۔بدین مٹھی روڈ پر کچھ مقامات پر جانوروں کے چارے کی بوریاں تقیسم ہوتی ہوئی نظر آئیں، لیکن کئی خواہشمند اور بوریاں کم نکلیں۔ ایک سینٹر پر محکمہ اینیمل ہسبنڈری کے ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ صرف دوسو بوریاں لائے تھے جو فوری ختم ہوگئیں، وہ فی جانور ایک کلو کے حساب سے چارہ دے رہے ہیں جبکہ لوگوں میں سے کسی کی سو بھیڑیں ہیں تو کسی کی دوسو۔متاثرین کا کہنا تھا کہ یہ چارہ تو ایک ہفتے تک بھی نہیں چل سکے گا۔واضح رہے کہ پاکستان میں مال مویشیوں کی شماری کے مطابق تھر میں پچاس لاکھ سے زائد مویشی موجود ہیں۔ گزشتہ دو ماہ میں بیماری کے باعث کئی ہزار بھیڑیں مرچکی ہیں۔پاکستان فوج اور رینجرز کے بھی کیمپ قائم ہیں۔ سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے رینجرز کی یہاں کئی چوکیاں موجود ہیں جہاں سے لوگوں کو روزانہ گذرنا ہوتا ہے، جو تجربہ کئی بار اچھا نہیں ہوتا۔تھر میں چرند اور پرند کے بعد اب انسانوں پر بھی غذائی قلت کے اثرات سامنے آئے ہیں۔ ان مشکلات کا سب سے پہلا شکار بچے بنے ہیں اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف مٹھی کے ضلعی ہسپتال میں دو ماہ میں 60 بچے انتقال کر چکے ہیں۔جبکہ ایک لاکھ 75 ہزار سے زائد خاندان متاثر ہوئے ہیں اور اطلاعات کے مطابق انسانی جانوں اور مویشیوں کو بچانے کے لیے کیے گئے اقدامات ناکافی ہیں۔تھرپارکرکے ضلعی ہیڈ کوارٹر مٹھی میں پہنچنے والی امدادآہستہ آہستہ قرب وجوار کے گوٹھ اوردیہات میں پہنچنا شروع ہوگئی ہے،تاہم متاثرین کہتے ہیں کہ اب بھی مکینوں کی بہت بڑی تعدادامداد کی منتظر ہے۔تھرپارکرمیں غذائی بحران نے انسانیت کوجھنجھوڑ کررکھ دیاہے،متاثرین کو شکایت ہے کہ اب بھی تھرپارکر کے سیکڑوں دیہات میں امدادی اشیا نہیں پہنچی ہیں،سیاسی ،سماجی اورمذہبی جماعتیں امداد میں مصروف ہیں،پاک فوج ،رینجرز اوردیگر فلاحی ادارے بھی امدادی سامان لیکر دوردراز دیہات پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں اور مٹھی کے قریبی دیہات میں امدادی سامان کی ترسیل شروع کردی گئی ہے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ٹوئٹر پر قحط سالی کا نوٹس لیا، جس کے بعد انہوں نے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کو سندھ پہنچنے کا کہا، اور خود بھی مٹھی پہنچے۔کہا جارہا ہے کہ تھر کے قحط سالی میں لاپرواہی سے کام لینے پر بلاول بھٹو نے اپنے پارٹی کے لوگوں پر ناراضگی کا اظہار کیا۔اور کہا کے لوگوں کی جان کے معاملے میں کسی قسم کی لاپرواہی برداشت نہیں کروںگا۔سندھ کے جنوب مشرق کی طرف بھارتی سرحد سے متصل 22 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط صحراءتھر پاکستان کا سب سے بڑا صحرا سمجھا جاتا ہے۔جو اس وقت پانی اور غذا کی قلت کے باعث انتہائی مخدوش حالت میں ہے۔گذشتہ روز دو اور بچے غذائی قلت کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔بھوک اور کمزوری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں سے اب تک 150 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ڈاکٹروں کے مطابق تھر میں خشک سالی کا سب سے زیادہ نقصان بچوں اور حاملہ عورتوں کی صحت پر ہوا ہے۔تھر کے مرکزی ضلعے مٹھی کے گاو¿ں ہوتھیار میں میرے لیے صبح کا آغاز بچوں کے بھوک سے رونے سے ہوا۔گاو¿ں والوں نے ہمیں بتایا کے کبھی صبح لسی بننے کی آواز سے شروع ہوتی تھی لیکن قحط سالی کے بعد لوگ چند دانے باجرے میں پانی ملا کر پیتے ہیں۔ڈاکٹروں کی قلت علاقے میں ڈاکٹروں کی بھی قلت ہے۔پورے تھر میں بچوں کا صرف ایک ڈاکٹر ہے جبکہ علاقے میں ایک بھی گائیناکالوجسٹ نہیں ہے۔جب پوچھا کہ ایسا کیوں تو جواب ملا کہ ’اس سے بھوک مر جاتی ہے۔

Taliban New Leader (Mullah Fazlullah)

Image

پاکستانی طالبان کے نئے سربرہ فضل اللہ کے بارے میں بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں ۔پاکستانی طالبان بھی کسی خاص سلیبیرٹی سے کم تو ہیں نہیں اس لئے اب پاکستانی اعوام کو اپنے ملک کی مشہور شخصیتوں کے بارے میں جاننا چاہئے۔پاکستانی طالبان کے نئے سربراہ مولوی فضل اللہ تحریک کے سابق قائد حکیم اللہ محسود سے زیادہ خطرناک اور زیادہ پرتشدد رجحان کے مالک بتائے جاتے ہیں۔سوات کی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر حملے اور گذشتہ دنوں دیر بالا میں پاکستانی فوج کے میجر جنرل ثنا اللہ نیازی کے قتل کی ذمہ داری انھی کے جنگجوو¿ں نے قبول کی تھی۔فضل اللہ 1974 میں سوات میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق یوسفزئی قبیلے کی بابوکارخیل شاخ سے ہے ، مولوی فضل اللہ وہاں پر ایک طرف سے دوسری طرف ہاتھ سے کھچی جانے والی لیفٹ پر کام کیا کارتے تھے اور 3تک کماتے تھے اس کے بعد انہوں نے اس لیفٹ میں انجن بھی لگوایا تھا ۔اور وہ ایک پاو¿ں سے معمولی معذور بھی ہیں۔تحریک نفاذ شریعتِ محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کے داماد مولوی فضل اللہ نے جہانزیب کالج سوات سے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے تین درجوں تک دینی تعلیم بھی حاصل کی ہے تاہم وہ زیادہ تر صوفی محمد کی صحبت میں رہے جہاں وہ درس و تدریس کے کاموں میں شرکت کرتے رہے۔اکتوبر 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو مولانا صوفی محمد مالاکنڈ ڈویڑن سے ہزاروں لوگوں کو اپنے ساتھ جنگ کے لیے افغانستان لے گئے جن میں مولانا فضل اللہ بھی شامل تھے۔ افغانستان سے واپسی پر فضل اللہ گرفتار ہوئے اور تقریباً 17 ماہ تک جیل میں رہے۔انہوں نے سنہ 2005 اور 2006 میں سوات میں غیر قانونی ایف ایم ریڈیو چینل شروع کیا جس کی وجہ سے انہیں بہت کم عرصے میں لوگوں میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس ایف ایم چینل پر مغرب خصوصاً امریکہ، حفاظتی ٹیکوں، لڑکیوں کی پڑھائی کے خلاف خطبے دیے گئے۔2006 میں ملا فضل اللہ نے علاقے میں ’شریعت‘ کے نفاذ کے لیے عملی اقدمات بھی شروع کر دیے جس میں مقامی تنازعات کے فیصلے کرنا اور گلی کوچوں میں جنگجوو¿ں کا گشت شامل تھا۔پھر بات حد سے بڑھتی گئی اور وادی میں خودکش حملوں، سکولوں پر حملے اور اِغوا کے واقعات میں اضافہ ہوا تو مقامی انتظامیہ نے مولوی فضل اللہ کے خلاف کارروائی کا ارادہ کیا جس کے بعد پھر پولیس اور نیم فوجی دستوں کی مشترکہ کارروائی شروع ہوئی۔نومبر 2007 میں اس وقت کے وزیراعلیٰ اکرم درانی نے وفاقی حکومت سے سوات میں فوج بھیجنے کی درخواست کی اور فوج ایک محدود مینڈیٹ کے ساتھ سوات میں آئی۔تاہم فوجی کارروائیوں کے دوران بھی خودکش حملے، سکولوں پر حملے اور اغوا کے واقعات ہوتے رہے۔ سرکاری دفاتر بہت حد تک محدود ہو کر رہ گئے اور اس کے ساتھ ساتھ فضل اللہ نے سوات میں اپنی عدالتیں بھی قائم کر دیں۔فروری 2009 میں خیبر پختونخوا کی حکومت نےتحریک نفاذ شریعت محمدی کے رہنما صوفی محمد کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے مطابق حکومت سوات اور مالاکنڈ سمیت آٹھ اضلاع میں ایک متوازی نظامِ عدل ’شرعی عدالتیں‘ قائم کرنا تھا۔ اس کے بدلے میں صوفی محمد نے مولانا فضل اللہ کو تشدد سے باز رہنے کے لیے کہنا تھا۔تاہم مولانا صوفی محمد اپنے داماد مولانا فضل اللہ کے مسلح طالبان کے سامنے بے بس دکھائی دیے اور وہ معاہدے اور وعدے کے مطابق طالبان کو غیر مسلح کرنے اور انہیں متوازی حکومت چلانے سے روکنے میں ناکام رہے۔مئی 2009 میں پاکستانی فوج نے سوات میں فیصلہ کن کارروائی شروع کی تو ضلع کے بیشتر مقامات سے مولانا فضل اللہ کے حامی عسکریت پسندوں کو شکست کے بعد نکال دیا گیا۔اسی کارروائی کے دوران مولانا فضل اللہ اچانک غائب ہوگئے اور بعد میں انہوں نے افغانستان چلے جانے کی تصدیق کی۔حکومتِ پاکستان کے مطابق فضل اللہ سمیت دیگر شدت پسندوں نے افغانستان کے علاقوں کنڑ اور نورستان میں محفوظ ٹھکانے بنا لیے تھے اور افغانستان میں ان کے قیام کے دوران افغان سرحد سے متصل پاکستانی علاقے دیر میں سکیورٹی فورسز پر سرحد پار سے ہونے والے متعدد حملوں میں مولانا فضل اللہ کے گروپ کا نام سامنے آتا رہا ہے۔افغان اور نیٹو فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں فضل اللہ کی ہلاکت کی خبریں بھی سامنے آتی رہی لیکن یہ سب بعد میں غلط ثابت ہوئیں۔ملا فضل اللہ کی آخری ویڈیو کچھ عرصہ پہلے ہی سامنے آئی جس میں انہوں نے نہ صرف پاکستانی فوج کے جنرل ثنا اللہ نیازی کو مارنے کی ذمہ داری قبول کی بلکہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اپنا اگلا ہدف بھی قرار دیا تھا۔مبصرین کے خیال میں فضل اللہ کا نیا امیر مقرر ہونے کے بعد پاکستان میں میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے نئے سربراہ ملا فضل اللہ المعروف ملا ریڈیو پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے موڈ میں نظر نہیں آتے لیکن وزیراعظم نواز شریف اب بھی خواہاں ہیں کہ طالبان کوئی مثبت جواب دیں۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان کی سربراہی فضل اللہ کو ملنا اور تحریک کی قیادت کا فاٹا سے نکل کر بندوبستی علاقوں تک جانا ایک بڑی تبدیلی ہے اور یہ کہ فضل اللہ کو چنا جانا دراصل پاکستان کے لیے نفرت بھرا پیغام ہے۔سینیئر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کے خیال میں طالبان کے لیے نئے امیر کی تقرری مجبوری میں کیا گیا فیصلہ لگتا ہے اور سرحد پار افغانستان میں موجود فضل اللہ کے لیے پاکستان آنا اتنا آسان نہیں ہوگا جس کی وجہ سے بنیادی امور ان کے نائب خالد حقانی کے ہاتھ میں ہوں گے۔حکیم اللہ محسود کی ہلاکت اور اب فضل اللہ کےسامنے آنے پر پاکستانی فوج نے چپ سادھ رکھی ہے لیکن دفاعی تجزیہ کار حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کو امن مذاکرات پر حملہ قرار دینے سے گریزاں ہیں اور اکثریت کا خیال ہے کہ پہلے سے شکوک وشبہات کا شکار مذاکراتی عمل اب ملا فضل اللہ کی سربراہی میں ممکن ہی نہیں ہو پائے گا۔سابق سیکرٹری فاٹا برگیڈیئر(ر) محمود شاہ کا کہنا ہے کہ فضل اللہ سے 2008 اور 2009 میں مذاکرات ہوئے تھے۔ ایک معاہدہ بھی ہوا تھا اور حکومت نے ان کے تمام مطالبات مانے تھے لیکن فضل اللہ نے حکومت کے ساتھ بد عہدی کی ،جس کے بعد آپریشن کیا گیا۔وہ کہتے ہیں کہ ایسے آدمی کے ساتھ مذاکرات کی کیا ضرورت ہے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو مذاکرات کی پیشکش پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔‘جنرل (ر) طلعت مسعود کا خیال ہے کہ فضل اللہ کو چنا جانا ایک اچھا فیصلہ ہے اس سے پاکستان کی سویلین حکومت میں ٹی ٹی پی اور اس کے ایجنڈے کے بارے میں موجودہ ابہام ختم ہو جائے گا کیونکہ ملا فضل اللہ بات چیت نھیں چاہتے۔سابق حکومت میں سکیورٹی مشیر جنرل (ر) محمود درانی کو حکومت اور طالبان کی دوستی ہوتی مشکل نظر آ رہی ہے۔’مجھے یہ مشکل لگتا ہے کہ آپ ایک ایسے بندے کی طرف جس نے اتنی قتل وغارت کی ہے دوستی کا ہاتھ بڑھائیں اور وہ بھی جب وہ کہہ رہا ہے کہ میرا ایجنڈا تو وہی پرانا ہے۔ وہ جمہوریت پر ہمارے پارلیمانی نظام اور عدالتی نظام پر یقین نھیں رکھتے۔‘لیکن بعض ماہرین اب بھی مذاکرات کو اہمیت دے رہے ہیں۔ آئی آیس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کا کہنا ہے کہ فضل اللہ کا انتخاب ایک ردِعمل ہے کیونکہ طالبان کے پاس جواز ہے کہ حکومتِِ پاکستان نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔مگر حمید گل سمجھتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مذ اکرات اور مصالحت کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:’جب امریکہ اور بھارت سے بات ہو سکتی ہے تو پھر یہ (طالبان) تو ہمارے اپنے لوگ ہیں۔‘عسکری ماہرین یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ جلد یا بدیر حکومت کو کالعدم تحریک طالبان کے خلاف فوجی آپریشن ہی کرنا پڑےگا۔یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا فوج فضل اللہ کی جانب سے سوات اور دیر میں ہونے والے نقصانات کو بھول جائے گی یا آگے بڑھ کر حکومت کو سمجھانے کی کوشش کرے گی؟ اس نکتے پر ماہرین کی رائے منقسم ہے۔اور دوسری طرف کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت قیامِ امن کے لیے کسی قسم کے مذاکرات سے قبل اپنے بااختیار اور مخلص ہونے کا ثبوت دے۔تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اتوار کو بی بی سی اردو سے بات چیت کے دوران کہا کہ اگر حکومت قبائلی علاقوں میں تعینات فوجیوں کو واپس بلا لے اور ان کے ساتھیوں کو رہا کر دے تو طالبان کو مذاکرات کے لیے اس کے اختیار اور نیت پر یقین آ سکتا ہے۔