کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل پاس کر دیا گیا” شادی کی کم سے کم عمر18سال مقرر

Image

 کمسن لڑکی سے شادی کرنے والے مرد، لڑکی اور لڑکے کے والدین اور سرپرستوں کو قید اور جرمانے کی سزا میں اضافہ کر دیا گیا

کم عمر میں شادی ایران، افریقہ اور ساوتھ ایشیا میں ایک عام بات سمجھی جاتی ہے۔2009 میں پاکستان میں 985چائلڈ میرجز کے کیس رپورٹ کیے گئے۔کم عمر کی شادی نہ صرف معاشرتی ناسور ہے بلکہ اس سے دیگر کئی مسائل بھی ہوتے ہیں۔کم عمر کی شادی میں لڑکیاں کئی ذہنی وجسمانی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہیںاور پھرڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ہر سال تقریبا 14ملین لڑکیاں جن کی شادی 15, 14سال کی عمر میں کردی جاتی ہے۔ رسموں ، رواجوں کے نام پر ہر دور میں لڑکیوں کو قربان کردیا جاتا ہے۔لیکن اب اس جرم کی روک تھام کے لیے بھی اب ایک قانون بنا دیاگیا ہے۔پاکستان صوبہ سندھ کی اسمبلی نے کم عمری میں شادی پر پابندی کا بل اتفاقِ رائے سے منظور کر لیا ہے۔پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کی زیر صدارت اجلاس میں صوبائی وزیر روبینہ قائم خانی نے بچوں کی شادی پر پابندی کا بل پیش کیا جسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔تاہم بل کی منظوری کے وقت اپوزیشن کا کوئی رکن ایوان میں موجود نہیں تھا۔اس بل کے تحت شادی کے لیے کم سے کم عمر 18 برس ہوگی اور اس سے کم عمر بچوں کی شادی پر کمسن لڑکی سے شادی کرنے والے مرد اور لڑکی اور لڑکے کے والدین اور سرپرستوں کو قید اور جرمانے کی سزا میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔بل میں اس اقدام کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے اور اس کے مرتکب افراد کو تین برس تک قید اور 45 ہزار روپے تک جرمانے کی سزا ہو گی۔سندھ اسمبلی میں اس بل کی روحِ رواں شرمیلا فاروقی نے بات کرتے ہوئے اسے ایک ’تاریخی‘ قانون قرار دیا۔شرمیلا فاروقی شرمیلا فاروقی نے کمسنی میں شادی پر پابندی کے قانون کو تاریخی قانون قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل کم عمری کی شادی پر پابندی کا قانون 1929 میں بنایا گیا تھا جس کے تحت اس اقدام پر ایک ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہو سکتا تھا۔شرمیلا فاروقی نے کہا کہ 89 برس بعد اس قانون پر نظرِ ثانی کی گئی ہے اور 1929 کا ایکٹ منسوخ کر دیا گیا ہے اور اب یہ نیا قانون نافذ کیا گیا ہے۔اس سوال پر کہ کیا شادی کے لیے کم از کم عمر 18 برس مقرر کرنے سے قبل اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت کی گئی، شرمیلا نے بتایا کہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں وکلا، مختلف مکاتبِ فکر کے افراد، سول سوسائٹی اور بچوں کی شادیوں پر کام کرنے والی این جی اوز سے رائے لینے کے بعد ایک خصوصی کمیٹی بنائی گئی جس نے اس بل پر غور کیا جس کے بعد یہ قانون بنایا گیا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی میر نادر مگسی نے کہا کہ قانون تو بنائے جاتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد اصل بات ہے اور سندھ اور بلوچستان میں اب بھی کمسنی میں شادیوں کے 80 فیصد واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔

2 thoughts on “کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل پاس کر دیا گیا” شادی کی کم سے کم عمر18سال مقرر

Leave a comment