کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل پاس کر دیا گیا” شادی کی کم سے کم عمر18سال مقرر

Image

 کمسن لڑکی سے شادی کرنے والے مرد، لڑکی اور لڑکے کے والدین اور سرپرستوں کو قید اور جرمانے کی سزا میں اضافہ کر دیا گیا

کم عمر میں شادی ایران، افریقہ اور ساوتھ ایشیا میں ایک عام بات سمجھی جاتی ہے۔2009 میں پاکستان میں 985چائلڈ میرجز کے کیس رپورٹ کیے گئے۔کم عمر کی شادی نہ صرف معاشرتی ناسور ہے بلکہ اس سے دیگر کئی مسائل بھی ہوتے ہیں۔کم عمر کی شادی میں لڑکیاں کئی ذہنی وجسمانی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہیںاور پھرڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ہر سال تقریبا 14ملین لڑکیاں جن کی شادی 15, 14سال کی عمر میں کردی جاتی ہے۔ رسموں ، رواجوں کے نام پر ہر دور میں لڑکیوں کو قربان کردیا جاتا ہے۔لیکن اب اس جرم کی روک تھام کے لیے بھی اب ایک قانون بنا دیاگیا ہے۔پاکستان صوبہ سندھ کی اسمبلی نے کم عمری میں شادی پر پابندی کا بل اتفاقِ رائے سے منظور کر لیا ہے۔پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کی زیر صدارت اجلاس میں صوبائی وزیر روبینہ قائم خانی نے بچوں کی شادی پر پابندی کا بل پیش کیا جسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔تاہم بل کی منظوری کے وقت اپوزیشن کا کوئی رکن ایوان میں موجود نہیں تھا۔اس بل کے تحت شادی کے لیے کم سے کم عمر 18 برس ہوگی اور اس سے کم عمر بچوں کی شادی پر کمسن لڑکی سے شادی کرنے والے مرد اور لڑکی اور لڑکے کے والدین اور سرپرستوں کو قید اور جرمانے کی سزا میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔بل میں اس اقدام کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے اور اس کے مرتکب افراد کو تین برس تک قید اور 45 ہزار روپے تک جرمانے کی سزا ہو گی۔سندھ اسمبلی میں اس بل کی روحِ رواں شرمیلا فاروقی نے بات کرتے ہوئے اسے ایک ’تاریخی‘ قانون قرار دیا۔شرمیلا فاروقی شرمیلا فاروقی نے کمسنی میں شادی پر پابندی کے قانون کو تاریخی قانون قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل کم عمری کی شادی پر پابندی کا قانون 1929 میں بنایا گیا تھا جس کے تحت اس اقدام پر ایک ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہو سکتا تھا۔شرمیلا فاروقی نے کہا کہ 89 برس بعد اس قانون پر نظرِ ثانی کی گئی ہے اور 1929 کا ایکٹ منسوخ کر دیا گیا ہے اور اب یہ نیا قانون نافذ کیا گیا ہے۔اس سوال پر کہ کیا شادی کے لیے کم از کم عمر 18 برس مقرر کرنے سے قبل اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت کی گئی، شرمیلا نے بتایا کہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں وکلا، مختلف مکاتبِ فکر کے افراد، سول سوسائٹی اور بچوں کی شادیوں پر کام کرنے والی این جی اوز سے رائے لینے کے بعد ایک خصوصی کمیٹی بنائی گئی جس نے اس بل پر غور کیا جس کے بعد یہ قانون بنایا گیا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی میر نادر مگسی نے کہا کہ قانون تو بنائے جاتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد اصل بات ہے اور سندھ اور بلوچستان میں اب بھی کمسنی میں شادیوں کے 80 فیصد واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔

Be proud of your culture

Image

اپنے کلچر کو فروغ دیں اور اسے دنیابھر میں متعارف کروائیں
دلہنیں اسی اجرک میںلپٹ کر بابل کے آنگن سے رخصت ہوتی ہیں

یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ ہر لمحہ نیا فیشن اور نئے انداز اپنانا خواتین کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ہے اور بات جب اسٹائلز اور فیشن کی ہو تو ایسے میں خواتین کی صلا حیتیں خوب نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملبوسات کی لاجواب ڈیزائننگ کا فن محض بڑے بڑے فیشن ڈیزاینر ز کے ناموں تک ہی محدود نہیں بلکہ ایک گھریلوں خاتون بھی اپنے ملبوسات کی ڈیزائننگ بڑی خوبصورتی اور مہارت سے کرتی ہے۔ہمارے یہاں کی بیشتر خواتین ایسے لباس پہننا پسند کرتی ہیں جن میں ڈیزائننگ کے ساتھ ساتھ روایتی جھلک بھی موجود ہو۔ ایسا ہی آج کل اجرک سے بنی قمیض خواتین میں اتنی مقبول ہوئیں کہ ہر خاتون آج تک اپنے انداز سے پہنتی ہے۔جب ڈیزائنرز نے خواتین میں اجرک کو اتنا مقبول دیکھا تو انہوں نے بھی کسی نہ کسی اندازسے اجرک کو ڈیزائننگ کا حصہ بنالیا اور اجرک پر نٹس پر مختلف ملبوسات بازار میں بھی نظر آنے لگے۔ اجرک ایک ایسا دیدہ زیب پرنٹ ہے جسے بطور شال یا چادرہی اوڑھا جاتا تھا۔روایتی اجرک کی زمین یا بیک گراو¿نڈ گہرے نیلے یا میرون رنگ پر مشتمل ہوتا ہے۔اس پر مختلف انداز کے ایک جیسے پیڑنز بنے ہوتے ہیں۔جن کے درمیان میں جا بجا خوش نما سفید موٹیوز بکھرے دکھائی دیتے ہیں جو عموماستاروں کی شکل میں ہوتے ہیں ۔کاٹن سے تیار کردہ اجرک اپنی نفاست کے باعث ، ملائم اور ریشم کا سا احساس دلاتی ہے۔ یوں اجرک سندھی خواتین کی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پیدائش سے لیکر آخری دم تک ان کے ساتھ رہتی ہے۔کیونکہ سندھیوں کیلئے یہ صرف ایک چادر یا شال ہی نہیں بلکہ وہ اسے ، مختلف طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔سندھی ثقافت میں کسی مہمان کی گھر میں آمد کے بعد اسے رخصت کرتے وقت اجرک کی شال بطور تحفہ عنایت کی جاتی ہے۔سندھ کی یہ روایت ہے کہ کسی مہمان کو تعظیم بخشنی ہو تو یہی اجرک اسے پیش کی جاتی ہے۔ دوستی اور خیر سگالی کے جذبات کا اظہار بھی اسے بطور تحفہ پیش کر کے کیا جاتا ہے اور یہی سردار وں ووڈیروں کی شان بڑھانے کا باعث بنتی ہے۔سندھ کے اکثر گھرانوں میں نوز ائیدہ بچوں کو نہ صرف اجرک میں لپیٹا جاتا ہے بلکہ اس کا جھولا بنا کر اس میں سلایا بھی جاتا ہے۔لڑکیاں دوپٹے اور چادر کی مانند اسے اپنے سروں پر اوڑھتی ہیں۔ تو دلہنیں اسی اجرک میں لپٹ کر بابل کے آنگن سے رخصت ہوتی ہیں۔ ایک سندھی اپنے اجرک سے کس حد تک پیار کرتا ہے اس بات کو بیان کرنا مشکل ہے۔ بعض اوقات ضرورت پڑنے پر اسے بستر کی چادر اور میز پوش بھی بنالیا جاتا ہے۔اگر آپ یہ جاننا چاہتی ہیں کہ اجرک کیسے بنتی ہے تو اس کیلئے اندرون سندھ مٹیاری، بھٹ شاہ اور ہالاکے علاقوں کا دورہ کریں۔ صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مسکن بھٹ، شاہ کادورہ آپ پر یقینا سندھی کلچر کے درو اکردے گا۔ مٹیاری کو خاص طور سے اجرک تیار کرنے والے کاریگروں اور ہنر مندوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔سندھی اجرک کی تیاری کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس کی تیاری میں خصوصی طور پر اونٹ کا گوبرا ستعمال کیا جاتا ہے۔ جس کی بدولت اجرک کی پرنٹ نہ صرف کپڑے پر ٹھہر ساجاتا ہے بلکہ اس کے رنگ بھی آپس میں مکس نہیں ہوتے ۔ اجرک تیار کرنے کے مختلف مراحل ، خاص طور پر اسے اس کی پرنٹنگ پر غور کیا جائے تو اجرک بنانا ایک سائنٹیفک آرٹ نظر آتا ہے۔ اجرک کی پرنٹنگ کی تکنیک اس طرح ہے کہ جس کے ذریعے کچھ مطلوبہ حصوں میں رنگ کی خاطر خواہ مقدار جذب کی جاتی ہے جبکہ جن حصوں میں رنگ نہ دینا ہوان میں رنگ جذب نہیں ہونے دیا جاتا۔اجرک کی تیاری بلاشبہ ایک ایسا حیرت انگیز ہنر ہے جس کی داد نہ دینا نا انصافی
ہوگی۔ بطور پاکستانی ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے کلچر کو فروغ دیں اور اسے دنیا پھر میں متعارف کروائیں ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ خواتین نے اجرک کو اپنے ملبوسات کی ڈیزائنگ میں استعمال کر کے کچھ نہ کچھ تو فروغ بخشا ہے۔

بیٹیا ںہمیشہ والدین کے قریب رہتی ہیں

Image

والدین اپنی پوری عمر صرف اپنے بچوں کے لئے ہی جیتے ہیں اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو اپنے بچوں کے لئے قربان کر دیتے ہیں ۔خود کو اپنی ضرورتوں کو پوری طرح نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ لیکن ہم اکثرکئی باتوں میں اپنے والدین کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔کبھی کبھار ہمیں شاید احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم نے اپنے والدین کو تکلیف پہچائی ہے۔اولاد بہت خودغرض ہو جاتی ہے۔اگر میں اپنی بات کروں تو ہاں میں چاہے جو بھی کرلوں لیکن پھر بھی میں اپنے والدین کے لئے اتنا نہیں کر سکتی جتنا میرے والدین نے میرے لئے کیا ہے۔یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ والدین جب بوڑھے ہوجائیں تو انہیں اولاد کی توجہ کی بے حد ضرورت ہوتی ہے۔یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جب ہم ان کی خدمت اور دیکھ بھال کا فرض ادا کر سکتے ہیں ۔تاہم عمر رسیدہ والدین کی خدمت آپ کے لئے چیلنجنگ ہوسکتی ہے کیونکہ اس عمر میں بوڑھے والدین پر جسمانی اور ذہنی کمزوریاں غالب آجاتی ہے اور صحت کے بہت سے مسائل لاحق ہوجاتے ہیں ۔ جن کے سبب وہ اکثر اوقات چڑ چڑے بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن ہمارے دین اسلام میں ” والدین کو اُف تک کہنے کی بھی ممانعت ہے۔“ کہتے ہیں کہ بوڑھا اور بچہ ایک جیسے ہوتے ہیں۔بزرگ بچوں کی مانند ضد کرتے ہیں اور ذہنی وجسمانی طور پر کمزور ہونے کے باعث بچوں کی طرح خصوصی دیکھ بھال کے بھی متقاضی ہوتے ہیں ۔عمر رسیدہ افراد اکثر اوقات وہمی بھی ہوجاتے ہیں اور اپنی اس کیفیت کے تحت ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیں اور غذا کھانے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔ انکار اصرار ہوتا ہے کہ ڈاکٹران کا مزاج نہیں سمجھتا اور ان کا درست علاج نہیں کر سکتا۔اس لئے بہتر ہے کہ جن لوگوں سے وہ ملنا پسند کرتے ہو انہیں اپنے ہاں مدعو کریں اور ان کے دوستوں کو خصوصی اہمیت دیں۔بیشتر گھروں میں بوڑھے والدین کو الگ کمرے یا کسی علیحدہ گو شہ میں ڈال دیا جاتا ہے جس کے سبب وہ تنہائی، اداسی اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔انہیں کھانا پینا اور دواو غیرہ پہنچا کر اولاد یہ سمجھتی ہے کہ گویاسارے فرائض سے سبکدوش ہوگئے۔درحقیقت عمر کے اس دور میں انہیں آپ کی توجہ پیار بھری گفتگو اور محبت بھرے لمس کی بالکل اسی طرح ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ بچپن میں آپ کو تھی۔اس لئے آپ خواہ کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں۔ والدین کے لئے وقت ضرور نکالیں۔روزانہ ان کے پاس بیٹھیں باتیں کریں ان کے مسائل جانیں، شکایات سنیں اور ان کی دلجوئی کرنے کی کوشش کریں۔ہمارے ہاں یہ بات اکثر مشاہدے میں آئی ہے کہ بیٹوں کی نسبت بیٹیاں شادی کے بعد بھی والدین کے زیادہ قریب رہتی ہیں ۔لڑکیوں کی زندگی کا اصل امتحان تو تب شروع ہوتا ہے جب وہ اپنے بوڑھے والدین کے ساتھ ساتھ بوڑھے ساس سسر کی بھی اسی ہی طرح دیکھ بھال کریں۔اگر آپ کے ساس سسر بھی عمر کے اسی دور سے گزرے ہوں تو ان کے ساتھ بھی محبت ونرمی سے پیش آئیں اور ان کی خدمت بھی اپنے والدین کی طرح کریں۔کیونکہ ہم جیسا رویہ دوسروں کے والدین کے ساتھ رکھتے ہیں ویسا ہی رویہ ہمارے والدین کے ساتھ رکھا جاتا ہے ۔اس بات کا لڑکیوں کو خاص خیال رکھنا چا ہئے۔

Pakistan: Thar desert situation

Image

صحرائے تھر میں قحط اور خشک سالی
اعداد و شمار کے مطابق تھر میں گیارہ لاکھ لوگ خشک سالی سے متاثر ہوئے
جبکہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں

پاکستان کے صوبہ سندھ میں قدرتی آفات سے متاثر افراد کی اعداد و شمار کے مطابق صحرائی علاقے تھر میں گیارہ لاکھ لوگ خشک سالی سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔سپریم کورٹ نے حکومت سندھ سے تھر میں قحط سالی سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے جس میں موجودہ صورت حال کے ذمہ داران اور اس کی وجوہات کے تعین کے علاوہ صوبائی حکومت کی طرف سے کی گئی امدادی کارروائیوں کی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پیر کے روز تھر میں قحط سالی سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی جس میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدل فاتح ملک پیش ہوئے۔انھوں نے عدالت میں تھر کی صورتِ حال پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں کھانے پینے کی اشیا اور دیگر سامان بھجوا دیا گیا ہے، جبکہ وزیرِ اعلیٰ سندھ نے اوروزیرِ اعظم نے علاقے کا دورہ کیا۔انھوں نے کہا کہ جب تک بچوں کی حالت انتہائی خراب نہیں ہوتی، والدین بچوں کا علاج نہیں کرواتے۔ انھوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ گذشتہ تین ماہ میں 60 بچے ہلاک ہوئے ہیں، تاہم، وجہ قحط سالی نہیں بلکہ نمونیا اور دیگر بیماریاں تھیں۔اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے پوچھا کہ کیا وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ بچوں کی ہلاکت کے ذمہ دار والدین ہیں؟ لوگوں کو وزیرِ اعلیٰ اور وزیرِ اعظم کی نہیں، کھانے کی ضرورت ہے۔صحت کے عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ تھر میں حالیہ اموات میں اضافے کا تعلق عوام کا صحت کی سہولتوں تک عدم رسائی سے ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنے جائزہ رپورٹ میںبتایاہے کہ تھر میں قریبی صحت مرکز تک پہنچنے کے لیے ایک ہزار سے چار ہزار رپے درکار ہوتے ہیں اور یہ سفر دو سے چار گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔یاد رہے کہ سندھ حکومت یہ شکایت کرتی رہی ہے کہ لوگ ہپستالوں تک نہیں آتے، جس کی وجہ سے وہ صحت کی سہولیات سے محروم رہتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے فقدان کی وجہ سے لوگ ایمرجنسی میں ٹیکسی میں سفر کرتے ہیں۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق تھر میں ایک ضلعی ہسپتال، تین تحصیل ہسپتال، دو دیہی صحت مرکز، 34 بنیادی صحت مرکز، دو ماں اور بچہ صحت مرکز اور 82 ڈسپینسریاں موجود ہیں، جن میں 29 اسپیشلسٹ، 165 ڈاکٹروں جن میں ستائیس لیڈی ڈاکٹروں کی آسامیاں خالی ہیں، اسی طرح تین نرسنگ اسٹاف، 50 لیڈی ہیلتھ وزیٹرز اور 26 پیرامیڈیکل اسٹاف کی آسامیاں خالی ہیں
صحت کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ تھر میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق 67 بچے ہلاک ہوئے ہیں لیکن یہ اعداد و شمار سرکاری صحت مراکز کے تحت محدود ہیں، سرکاری نظام سے باہر اموات ریکارڈ نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے اموات کی تعداد زیادہ ہوسکتی ہے۔ایک اوررپورٹ کے مطابق تھر میں بچوں اور حاملہ خواتین میں بڑے پیمانے پر غذائی قلت موجود ہے، جس سے انفیکشن اور کئی بیماریوں میں جکڑنے کے خدشات موجود ہیں۔سول ہسپتال مٹھی میں ویسے تو سرکاری طور پر تمام ہی امراض کا علاج ہوتا ہے، لیکن موجودہ وقت ایسا لگتا ہے کہ یہ ہسپتال ہی بچوں کا ہے، یہ پورے ضلعے کا واحد سرکاری ہسپتال ہے جہاں لیڈی ڈاکٹر اور بچوں کے امراض کے ماہر موجود ہیں۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کہیں دوسرے ہسپتال میں مریضوں کے داخلے کی سہولت دستیاب نہیں، اسی لیے بھی تمام مریض یہاں کا رخ کر رہے ہیں، جہاں عام دنوں میں او پی ڈی سو سوا ہوتی تھی وہاں پانچ سو مریض پہنچ چکے ہیں۔سندھ حکومت نے حالیہ بحران کے پیشِ نظر علاقے میں گندم کی ایک لاکھ بیس ہزار بوریاں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ محکمہ خوراک کے ضلعی کنٹرولر محمد حنیف ابڑو نے بتایا ہے کہ وہ اس وقت تک 33 ہزار 300 بوریاں گندم تقسیم کرچکے ہیں، جبکہ ستائیس ہزار بوریاں گوداموں میں موجود ہیں۔یاد رہے کہ اس سے پہلے آٹھ ماہ میں گندم کی ساٹھ ہزار بوریاں تقسیم نہیں ہوسکی تھیں۔ قحط سالی کی اطلاعات کے بعد حکومت نے مزید ساٹھ ہزار بوریاں بھیجنے کا اعلان کیا تھا،
لیکن خود حکومتی اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ابھی تک اعلانیہ گندم پہنچ نہیں سکی ہے۔غیر سرکاری تنظیمیں صرف گندم کی تقسیم کی مخالفت کر رہی ہیں۔ اسکوپ نامی تنظیم کے مقامی رہنما بھارو مل کا کہنا ہے کہ سیلاب اور زلزلے میں جس طرح لوگوں کو حکومت آٹا، دال، چاول، گھی فراہم کرتی ہے یہاں بھی ایسے ہی پیکج کی ضرورت ہے۔ ’لوگ روٹی کس سے کھائیں گے، حکومت کو اس کا بھی خیال کرنا چاہیے۔بدین مٹھی روڈ پر کچھ مقامات پر جانوروں کے چارے کی بوریاں تقیسم ہوتی ہوئی نظر آئیں، لیکن کئی خواہشمند اور بوریاں کم نکلیں۔ ایک سینٹر پر محکمہ اینیمل ہسبنڈری کے ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ صرف دوسو بوریاں لائے تھے جو فوری ختم ہوگئیں، وہ فی جانور ایک کلو کے حساب سے چارہ دے رہے ہیں جبکہ لوگوں میں سے کسی کی سو بھیڑیں ہیں تو کسی کی دوسو۔متاثرین کا کہنا تھا کہ یہ چارہ تو ایک ہفتے تک بھی نہیں چل سکے گا۔واضح رہے کہ پاکستان میں مال مویشیوں کی شماری کے مطابق تھر میں پچاس لاکھ سے زائد مویشی موجود ہیں۔ گزشتہ دو ماہ میں بیماری کے باعث کئی ہزار بھیڑیں مرچکی ہیں۔پاکستان فوج اور رینجرز کے بھی کیمپ قائم ہیں۔ سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے رینجرز کی یہاں کئی چوکیاں موجود ہیں جہاں سے لوگوں کو روزانہ گذرنا ہوتا ہے، جو تجربہ کئی بار اچھا نہیں ہوتا۔تھر میں چرند اور پرند کے بعد اب انسانوں پر بھی غذائی قلت کے اثرات سامنے آئے ہیں۔ ان مشکلات کا سب سے پہلا شکار بچے بنے ہیں اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف مٹھی کے ضلعی ہسپتال میں دو ماہ میں 60 بچے انتقال کر چکے ہیں۔جبکہ ایک لاکھ 75 ہزار سے زائد خاندان متاثر ہوئے ہیں اور اطلاعات کے مطابق انسانی جانوں اور مویشیوں کو بچانے کے لیے کیے گئے اقدامات ناکافی ہیں۔تھرپارکرکے ضلعی ہیڈ کوارٹر مٹھی میں پہنچنے والی امدادآہستہ آہستہ قرب وجوار کے گوٹھ اوردیہات میں پہنچنا شروع ہوگئی ہے،تاہم متاثرین کہتے ہیں کہ اب بھی مکینوں کی بہت بڑی تعدادامداد کی منتظر ہے۔تھرپارکرمیں غذائی بحران نے انسانیت کوجھنجھوڑ کررکھ دیاہے،متاثرین کو شکایت ہے کہ اب بھی تھرپارکر کے سیکڑوں دیہات میں امدادی اشیا نہیں پہنچی ہیں،سیاسی ،سماجی اورمذہبی جماعتیں امداد میں مصروف ہیں،پاک فوج ،رینجرز اوردیگر فلاحی ادارے بھی امدادی سامان لیکر دوردراز دیہات پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں اور مٹھی کے قریبی دیہات میں امدادی سامان کی ترسیل شروع کردی گئی ہے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ٹوئٹر پر قحط سالی کا نوٹس لیا، جس کے بعد انہوں نے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کو سندھ پہنچنے کا کہا، اور خود بھی مٹھی پہنچے۔کہا جارہا ہے کہ تھر کے قحط سالی میں لاپرواہی سے کام لینے پر بلاول بھٹو نے اپنے پارٹی کے لوگوں پر ناراضگی کا اظہار کیا۔اور کہا کے لوگوں کی جان کے معاملے میں کسی قسم کی لاپرواہی برداشت نہیں کروںگا۔سندھ کے جنوب مشرق کی طرف بھارتی سرحد سے متصل 22 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط صحراءتھر پاکستان کا سب سے بڑا صحرا سمجھا جاتا ہے۔جو اس وقت پانی اور غذا کی قلت کے باعث انتہائی مخدوش حالت میں ہے۔گذشتہ روز دو اور بچے غذائی قلت کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔بھوک اور کمزوری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں سے اب تک 150 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ڈاکٹروں کے مطابق تھر میں خشک سالی کا سب سے زیادہ نقصان بچوں اور حاملہ عورتوں کی صحت پر ہوا ہے۔تھر کے مرکزی ضلعے مٹھی کے گاو¿ں ہوتھیار میں میرے لیے صبح کا آغاز بچوں کے بھوک سے رونے سے ہوا۔گاو¿ں والوں نے ہمیں بتایا کے کبھی صبح لسی بننے کی آواز سے شروع ہوتی تھی لیکن قحط سالی کے بعد لوگ چند دانے باجرے میں پانی ملا کر پیتے ہیں۔ڈاکٹروں کی قلت علاقے میں ڈاکٹروں کی بھی قلت ہے۔پورے تھر میں بچوں کا صرف ایک ڈاکٹر ہے جبکہ علاقے میں ایک بھی گائیناکالوجسٹ نہیں ہے۔جب پوچھا کہ ایسا کیوں تو جواب ملا کہ ’اس سے بھوک مر جاتی ہے۔

My First Editorial…

ماہ مارچ کی اہمیت
مارچ سال کا تیسرا مہینہ اور سردی کا آخری مہینہ کہلاتا ہے23 مارچ قرارداد پاکستان کی منظوری کی وجہ سے یہ ماہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ مارچ کے شروع کے پندرہ دنوں میں مختلف مذاہب کے تہوار منائیں جاتے ہیں ۔ اس ماہ کا برج حمل بھی ستاروں کے حساب سے پہلا برج مانا جاتا ہے۔ قدیم روم میں یہ سال کا پہلا مہینہ ہوتا تھا اور اس کا نام قدیم روم کے جنگ کے دیوتا ماس کے نام پر رکھا گیا تھا جو پھر بعد میں مارس اور پھر مارچ میں تبدیل ہو گیا۔مارچ کے مہینے کی ایک اور خاص بات ہے اور وہ ہے ( International Women’s Day) خواتین کے لئے منایا جانے والایہ دن 8مارچ 1914سے منایا جاتا رہا ہے۔ معاشرے میں خواتین کا مقام ہمیشہ موضوع زیر بحث رہا ہے۔ہندو مذہب کی روسے عورت کی حیثیت پاو¿ں کی جوتی کی سی تھی اگر پاو¿ں میں پوری آئی اور اچھی لگی تو پہن لی اگر نا گوار خاطر ہوئی تو اسے الگ کر دیا۔اسلام سے پہلے عورت کو حقیر اور کم تر حیثیت کی حامل سمجھا جاتا تھا اور کسی گھر میں لڑکی کا پیدا ہونا شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا تھا۔لیکن اسلام نے اس عقیدہ کو ختم کر کے عورت کو عزت دی انہیں ان کے جائز حقوق دلوائے۔موجودہ سائنسی دور میں ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مغربی تہذیب نے بظاہر عورت کو مرد کے مساوی حقوق دیئے ہیں اسے دفتروں، دکانوں، کارخانوں، کلبوں اور ہر شعبہ حیات میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا تصور پیش کیا ہے ۔فرانس جیسے ترقی یافتہ اور فیشن پر ستوں کے ملک میں عورت کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا کچھ سال پہلے یہ حق انہیںدیا گیا ہے۔اس وقت بھی امریکہ جیسے امیر ترین ملک میں کام کرنے والی عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں آدھا معاوضہ ملتا ہے۔زندگی کے ہر شعبے میں مسلمان خواتین نے مثالی کردار ادا کئے عمل و ادب کے میدان میں، جنگ کے میدان میں اور سیاست کے میدان میں غرض کے اب تو ہر شعبہ میںنمایاں کارنامے انجام دیئے۔والدہ یعنی بڑی اماں، جہا نگیر کی ملکہ نور جہاں، ہارون الر شید کی ملکہ زبیدہ اور موجود ہ دور میں سابقہ وزیر اعظیم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی کامیاب مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اور صرف یہی نہیں شاید ہی ایسا کوئی شعبہ ہو جس میں مسلمان خواتین نے اپنا بہترین کر دار ادا نہ کیا ہو۔8مارچ کو International Women’s Day کا دن مناتے ہوئے ہم اپنے اس تازہ شمارے میںخواتین کو خارج تحسین پیش کرتے ہیں اور ان کی ہمت کو داد دیتے ہوئے انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔

Self Medication

Image

ڈپریشن سے باہر نکلنے کے لئے اپنا علاج خود کریں
ہم سب اپنی زندگی کوکار آمد اور با مقصد بنانے کے خواہاں رہتے ہیں۔خواتین کے ساتھ یہ مسئلہ نسبتا زیادہ ہوتا ہے۔کیونکہ کچھ تو انہیں معاشرے کی طرف سے پابندیوں اور رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے اور کچھ وہ خود ساختہ رکاوٹوں میں بھی اپنے آپ کو الجھا لیتی ہیں۔اورنتیجہ میں ڈیپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں۔خاص طور پر گھر میں رہنے والی خواتین پریہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے جیسے خود کو اکیلا محسوس کرنا، ہر بات پر رونا شروع کر دینا، خوف میں رہنا، زیادہ طر وقت غمگین رہنا،جیسے کوئی ان کی بات نہیں سنتا اور نہ ہی سمجھتا ہے ۔ ایسی صورت میں نہ وہ خود خوش رہے پاتی ہیں اور نہ دوسروں کو خوش رکھ پاتی ہیں، اس وجہ سے گھر والوں کی شکایتیں سن سن کر مزید ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں۔اور فطری طور پر یہ خواہش ہوتی ہے کہ انہیں کوئی مشورہ دینے اور صحیح راہ دکھانے والا میسر آجائے۔لیکن ہمارے ہاں کی خواتین کیلئے کسی ایکسپرٹ سے رجوع کرنا بھی آسان نہیں ہوتا۔اس لئے زیادہ بہتر یہی ہے کہ اپنی ایکسپرٹ اور تھر اپسٹ خود بن جائیں اور ضرورت پڑنے پر اپنی تھراپی خود ہی کریں یقین کریں ایسا کرنا ممکن ہے۔کسی بھی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر اپنی قوت فیصلہ کو بہترین بنائیں اور سب سے پہلے اپنی تر جیحات طے کریں یہ دیکھیں کہ وقت کی مناسبت سے آپ کیلئے سب سے زیادہ ضروری کام کیا ہے۔اس لئے اپنے ذہن کو ڈھیر ساری باتوں میں الجھانے کے بجائے ان تمام کاموں کی فہرست بنائیں ۔جنہیں آپ انجام دینا چاہتی ہیں ،ایک وقت میں ایک کام ہی آپ کی کامیابی کا راز ہے، ایک وقت میں ایک سے زیادہ کام کرنے سے الجھن میں پڑ سکتی ہیں۔تاہم اس بات کا خیال رکھیں کہ اپنے لئے جس بھی مقصد کا تعین کریں وہ حقیقی ، قابل عمل اور مفید ہو اور اسے پورا کرنے کیلئے ایک وقت مقرر کر لیں آپ دیکھیں گی کہ مزاج ، عادات اور رویے میں ذراسی تبدیلی آپ کیلئے کتنی خوش آئندہ ثابت ہو سکتی ہے بلکہ آپ چائیں تو ذیل میں دیئے گئے طریقوں کی وجہ سے آپ اپنی تھراپی خود کر سکتے ہیں۔خود کو جاننے کیلئے اپنے آپ سے باہر نکلیں اور بالکل غیر جانبداری کے ساتھ اپنے طرز زندگی کا عملی مشاہدہ کریں۔ایک نوٹ بک بنائیں جس میں اپنی سوچ احساسات اور طرز عمل کیسا تھا یہ تمام باتیں رات کو سونے سے پہلے لکھ لیں اور سو جائیں کیونکہ آپکا پور سکون رہنا ضروری ہے، آخرسوتے وقت ہی ہمارے ذہن میں ساری باتیں آرہی ہوتی ہیں لیکن آپکو چاہیے کہ آپ اپنی سوچ پر قابو رکھیں ، نیند آنے تک کتاب پڑھنا بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔اس دوران لوگوں کی طبیعت زیادہ طر حساس ہی رہتی ہے اس لئے ہر چھوٹی بات پر رونا یہ تنقید پر تناو¿ اور غصے کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ، لہذا اپنے اندرمثبت تبدیلیاں لانے کی کوشش کریں اور مثبت تنقید کو برداشت کرنا سیکھیں۔ جب کسی بات پر رونا آئے یہ گزری ہوئی بات یاد آنے پر آپ کو رونے کو دل کریں تو اس وقت اپنے نوٹ بک میں لکھنا شروع کریں اور تب تک لکھتی رہیں جب تک آپ خود کو رلیکس محسوس نہ کریں۔کچھ لوگ اس دوران ہر بات سے خوف زدہ رہتے ہیں جیسے کچھ برا ہونے والا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات ہوتی نہیں ہے مگر اس دوران کیفیت ہی عجیب سی ہوجاتی ہے مثلا جیسے زیادہ پانی دیکھ کر ڈر لگنا، سانس لینے میں مشکل، دل اور دماغ پر دباو¿ ، ضرورت ہے اپنے اس ڈر پر قابو پانے کی اور ہر وقت خود کو یاد دلانے کی کے سب کچھ ٹھیک ہے اور کچھ برا نہیں ہوگا۔کوشش کریں ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جن سے مل کر آپ کو خوشی محسوس ہوتی ہے۔کیونکہ تھراپی کا مطلب ہی خوشی اور سکون حاصل کرنا ہے اس کے علاوہ اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی کوشش کرنا ہے، سب کے ساتھ خوش رہیں لیکن کسی کو بھی اپنی کمزوری نہ بننے دیں۔ جب بھی کوئی بات آپ کو بری لگے فورا اس کا اظہار کریں مگر آرام سے دھیان رکھیں کہ آپ جذباتی نہ ہوں۔ اور کسی بھی مسئلے سے نمٹنے کے بعد اسے بھول جائیں۔زیادہ پریشان نہ ہوا کریں۔ اس طریقے پر عمل کرنے سے آپ بار بار خود کو اذیت پہنچانے سے بچ جائیں گی۔ اور آپکی الجھن بھی دھیرے دھیرے ختم ہوتی جائے گی اور آپ اس کیفیت سے نکل آئیں گی۔

Wastage of Money in Marriages

Image

بھاری بھرکم ملبوسات،زیورات اور سجاوٹ
تقریبات میں فضول خرچی ہماری پہچان بن چکی ہے
شادی بیاہ کی تقریبات منعقد کرنے کیلئے موسم کا اچھا ہونا ضروری ہے۔موسم گرما میں ہونے والی شادیوں میں اکثر نہ تو بھاری بھر کم ملبوسات زیب تن کئے جا سکتے ہیںاور نہ ہی میک اپ ۔اکثر خواتین موسم گرما میں چارونا چار ایک ایک طرف کپڑوں اور دوسری طرف پیسنے میں بہہ جانے والے میک اپ سے بیزار ہی نظر آتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ اچھے موسم کے انتظار میں شادی دیر سے کرنے کو توجیح دیتے ہیں۔یہی صورتحال آج کل نظر آرہی ہے۔جہاں موسم بدلتے ہی شادیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔تمام چھوٹے بڑے بازاروں میں خواتین شادیوں کی خریداری میں مصروف ہوتی ہیں۔خواتین پیسوں سے بھرے ہوئے پرس لاتی ہیں اور پانی کی طرح بہا کر چلی جاتی ہیں۔شادی لڑکے کی ہو یا لڑکی کی والدین کیلئے کسی امتحان سے کم نہیں ہوتی ایک طرف آج کل کے دورمیں شدید مہنگائی کے باوجود لڑکی کو جہیز دینے کیلئے ناک اونچی رکھنے کا مسئلہ ہے۔دوسری طرف تقریب میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔اور نمود نمائش نے لوگوں میں مقابلے کا رجحان پیدا کر دیا ہے۔آج کل خاندان کی ایک بچے کی شادی میں کوئی کمی رہ جائے تو اسے دوسری شادی میں پورا کرنے کیلئے ہزار جتن کئے جاتے ہیں۔مہندی یا شادی کی تقریب میں لاکھوں روپے کے پھولوں کی سجاوٹ صرف احباب کو متاثر کرنے کیلئے اور دکھاوے کے لئے کی جاتی ہیں۔غیر ملکی بھی پاکستانیوں کی شادی اور سج دھج کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔امریکی بھی پاکستانیوں کی یہ سج دھج دیکھ کے حیران رہ جاتے ہیںبڑی بڑی اور قیمتی گاڑیاں، دولہا دلہن کے بیش قیمت ملبوسات اور دلہن کے بھاری زیورات دیکھ کر حیران رہ جاتی ہیں۔کیونکہ ایسی فضول خرچی تو امریکہ جیسے ملک میں بھی نہیں ہوتی۔امریکہ میں شادی کیلئے ایک دن مختص ہوتا ہے۔لیکن پاکستان میں شروع ہوجائے تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔یہاں تو کپڑے کم پڑ جاتے ہیں۔لیکن پھر بھی شادی کی تقریب کی کوئی نہ کوئی تقریب رہ جاتی ہے۔یہ سب فضول خرچی کے سوا کچھ نہیں۔فیشن ڈیزائزز دولہا، دلہن کے مہندی، بارات اور ولیمہ کے ملبوسات تیار کر کے لاکھوں کا منا فع کماتے ہیں۔حالانکہ اگر سادگی کو فروغ دیا جائے تو یہی پیسا بچا کر کسی کی بیٹی کے ہاتھ پیلے کئے جا سکتے ہیں۔گزشتہ دنوں یہی موضوع زیر بحث تھا۔ایک خاتون نے ناک چڑھا کر کہا، ہم غریبوں کو بھی دیتے ہیں۔لیکن کسی مہینے کہہ دیں کہ اس بار ہاتھ تنگ ہے اگلے مہینے آجائیں تو ہمیں بدعائیں دینے لگتے ہیں۔ بس یہی سوچ کر میں نہیں دیتی۔کہ ایک طرف تو دیں اور دوسری طرف بدعائیں بھی لیں۔چند گھنٹوں کیلئے پہنا جانے والا بھاری بھر کم عروسی لباس، مہنگا فر نیچر، زیورات و دیگر تحائف و غیرہ دراصل دوسروں پر دولت کا عب ڈالنے کے مترادف ہے۔شادی سادگی سے کرنا سنت رسول ہے۔میڈیا عام گھر انوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پروگرام پیش کرے۔کیونکہ ایک دوسرے کو متاثر کرنے کی دوڑ میں پیسے کاضیاع کیا جارہا ہے۔جو کسی طور بھی درست نہیں ہے۔

Pakistan in 2013

2013میں پاکستان
2013 میں پاکستان میں ہونے والے اہم واقعات پر ایک نظر

Image

سال 2013کے شروع سے لیکر آخر تک ملک میں کیا کچھ ہوا اور کیا کچھ بدلہ۔ علامہ طاہر القادری کا لانگ مارچ،کوئٹہ اور سوات میں بم دھماکے، کوئٹہ میں نقط انجماد کے

باوجودور ثا کا 86میتوں کے ساتھ تین دن سڑکوں پر درھرنا، مظاہرین کے مطالبے پر بلوچستان میں گور نرراج ،کا نفاذ، ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحد گی۔سپریم کورٹ کی طرف سے وزیرا عظم راجا پرویز اشرف کی گرفتاری کا حکم۔سابق صدر پر ویز مشرف کی وطن واپسی اور گرفتاری،کراچی میں ابوا لحسن اصفہانی روڈ پر خوف بم دھماکوں میں دور ہائشی عمار توں کی تباہی، پچاس افراد کی ہلاکت، نئے سال کے ابتدائی تین ماہ کی اہم خبریں تھیں۔پشاور، کوئٹہ اور وزیر ستان میں دہشت گردی کے بڑے واقعات رونما۔نانگاپر بت پر غیر ملکی کوہ پیمادہشت گردی کا نشانہ بنے۔خوف دہشت کی اسی فضا میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں نے اپنی اپنی میعاد مکمل کی،عام انتخابات عمل میں آئے۔انتخابی مہم کے دوران ملک بھر میں 113افراد ہلاک ہوئے۔ایم کیو ایم، اے این پی اور تحریک انصاف کے انتخابی دفاتر اور جلسے زیادہ نشانہ بنے۔البتہ پنجاب پر سکون رہا۔کراچی میں مختلف واقعات کے دوران ایم کیو ایم کے دوار کان سندھ اسمبلی جاں بحق ہوئے۔صدر آصف علی زرداری نے اپنی آئینی مدت پوری کرلی۔ممنون حسین نے بارہویں صدر پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھالیا۔ڈیرہ اسماعیل خان میں طالبان جیل پر حملہ کر کے 253قیدی چھڑا کر لے گئے۔چیف الیکشن کمشز فخرالدین جی ابراہیم مستعفی ہوگئے۔کراچی میں شدید بارش نے معمولات زندگی درہم برہم کردیئے۔ملک کے مختلف علاقے شدید سیلاب کی زدمیں آگئے۔سیالکوٹ کے شہریوں نے سیلابی پانی میں مچھلیاں پکڑنا شروع کردیں۔اسلام آباد میں صرف ایک شخص نے دو بندوقوں کے بل بوتے پر پوری انتظامیہ کو مفلوج کردیا۔ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے ضمنی انتخابات کا انعقاد،برسر اقتدار جماعتیں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی۔پشاور کے چرچ میں خود کش بم دھماکا،86افراد زندگی کی بازی ہارگئے۔ایک ہفتے بعد پشاور کے قصہ خوانی بازار میں بھی دھماکا، ایک ہی خاندان کے سولہ افراد سمیت 40افراد جاں بحق ہوئے۔بلوچستان میں اپریل اور ستمبر کے مہینوں میں زلزلہ آیا۔پہلے زلزلے میں ماشکیل اور دوسرے زلزلے میں آواران کے علاقے زیادہ متاثر ہوئے۔سوات میں میجر جزل ثناءاللہ نیازی کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا۔ڈرون حملے حسب معمول جاری رہے۔ایسے ہی ایک حملے میں حکیم اللہ محسودہلاک ہوا۔جس کے بعد طالبان اور حکومت کے مذاکرات کا معاملہ کھٹائی میں پڑگیا، راولپنڈی میں یوم عا شورہ پر رونما ہونے والے تا خوش گوار واقعے کے بعد کرفیونافذ کردیا گیا۔خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دہشت گردوں کے حملے معمول بنے رہے۔آواران میں امدادی کار روائیاں انجام دینے والے فوجی بھی محفوظ نہ رہ سکے۔کراچی میں بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی کار روائیوں کی روک تھام کے لیے وفاقی حکومت کے حکم پر ٹار گٹڈ آپریشن شروع ہوا۔جس میں ایک اطلاع کے مطابق نو ہزار گرفتاریاں عمل میںآئیںلیکن عدالتوں میں صرف چندہی کیس پیش کیے گئے۔ان د ل سوزواقعات کے علاوہ ابل وطن کو کچھ اچھی خبریں بھی ملیں۔امریکی دباو¿ کے باوجود پاکستان اور ایران نے گیس پائپ لائن کے منصوبے پر دستخط کر دیئے۔پاکستان نے بھارت کے خلاف سات سال بعد ون ڈے کرکٹ سیر یز جیت کر کو لکتہ کی سرزمین پر ناقابل شکست رہنے کا ریکارڈبرقرار رکھا۔پاک فوج کے پہلے لیڈی پیر اٹروپر دستے نے اپنی تربیت مکمل کرلی۔ملالہ یوسف زئی کو امن کے نوبل پرائز کے لیے نام زد کیا گیا۔پاک فضائیہ میں عائشہ فاروق پہلی خاتون کا پائلٹ بن گئیں۔پہلی پاکستان خاتون ثمینہ بیگ نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماو¿نٹ ایورسٹ سر کرلی۔حکومت پاکستان نے سابق صدر پاکستان جزل(ریٹائرڈ)پرویزمشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا۔

Attention Deficit Hyperactivity Disorder ( ADHD)

Image

بچوں میں غیر معمولی بے قراری اور عدم تو جہی کا عارضہ
بچپن تو نام شرارتوں اور چلبلے پن کا ہے لیکن کچھ بچے غیر معمولی حدتک بے قرار اور چلبلے ہو سکتے ہیں۔اس سیماب صفت فطرت کے ساتھ ان میں اگر کچھ اور علا متیں بھی پائی جائیں مثلا وہ ہدایات پر توجہ نہ دیں،مستقل مزاجی کا مظاہرہ نہ کریں، چہرے سے ہمہ وقت پریشانی کا اظہار ہو، خاموش یا پرسکون رہناان کیلئے ممکن نہ ہو،بیٹھے بٹھائے اچا نک کچھ بھی کر گزریں تو یہ علا متیں ایک خاص قسم کے نفسیاتی عارضے کی نشاندہی کر سکتی ہیں جسے Hyperactivity Disorder Attention Deficit یاADHD کہتے ہیں ۔ اسکول جانے والی عمر کے 4سے12فیصد بچے ADHDمیں مبتلا ہو سکتے ہیں۔لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکے اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ADHD ایک ایسی طبی صورت حال کا نام ہے جس میں مبتلا افراد کسی بھی کام پر توجہ مر کوز کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔اس کیفیت کے آثاران لوگوں میں بچپن میں ہی نظر آنے لگتے ہیں اور بالغ ہونے کے بعد بھی ان کا مزاج اسی قسم کا رہتا ہے۔اگر اس طبی خرابی کا علاج نہ کیا جائے تو ADHDکے مریضوں کو ان کے اپنے گھر میں،اسکول میں ، کام کی جگہوں پر اور مختلف لوگوں کے ساتھ تعلقات میں مسائل پیش آسکتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے تکADHDکو Disorder Attention Deficit یا ADDبھی کہا جاتا تھا۔
ADDکا سبب کیا ہوتا ہے؟
اس نفسیاتی عارضے کی اصل وجہ اب تک واضح نہیں ہو سکی ہے لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ شکا یتیں ایک ہی خاندان کے مختلف افراد میں ہو سکتی ہیں۔
علا متیں کیا ہوتی ہیں؟
ADHDکی عموما تین قسمیں ہوتی ہیں اور ان کی علامتیں درج ذیل ہیں۔
کسی بھی چیز پر توجہ دینے میں دشواری
ADHDمیں مبتلا افراد کی طبیعت میں بے انتہا بے چینی پائی جاتی ہے۔کوئی بھی کام وہ دلجمعی کے ساتھ نہیں کر پاتے اور اگر انہیں کوئی ذمہ داری سونپی جائے تو اس توجہ دینے میں انہیں بہت زیادہ دشواری محسوس ہوتی ہے۔تھوڑی دیر کیلئے ایک جگہ ٹک کر بیٹھنا بھی انہیں دشوار ہوتا ہے۔ADHDکے شکار بچوں کی طبیعت میں جو سیمابی کیفیت پائی جاتی ہے اسے Hyperactivity کہتے ہیں۔اس قسم کے بچے اچانگ بیٹھے بٹھائے تڑپ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔بعض اوقات ہلے جلے بغیر اپنے چہرے سے بے چینی کا اظہار کرتے ہیں اورایسا بھی ہوتا ہے کہ بہت ہی غلط موقعوں پر اچانک دوڑ پڑتے ہیں۔اس کیفیت میں مبتلا کم عمر نوجوان اور بالغ افرادا کثر و ببیشتر اپنی طبیعت میں بے چینی محسوس کرتے ہیں۔انہیں خاموشی کے ساتھ پڑھنا یا کوئی اور کام کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔
سوچے بغیر عمل کر جانا
ADHDمیں مبتلا افراد بہت زیادہ بلند آواز سے گفتگو کرتے ہیں۔ان کی ہنسی بھی معمول سے ہٹ کر تیز ہوتی ہے اور وہ بعض ایسے موقعوں پر بھی بہت زیادہ ناراض ہوسکتے ہیں جن میں عام افراد کم ناراضگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ADHDوالے بچے قطار میں لگ کر انتظار کرنے کی زحمت برادشت نہیں کر سکتے ۔نہ ہی وہ دوسروں کے ساتھ کسی کام میں شریک ہونا پسند کرتے ہیں۔اس خامی کی وجہ سے دیگر بچوں کے ساتھ کھیل کو دان کیلئے دشوار ہوجاتا۔کم عمر جوان اور بالغ افراد اس خامی کی وجہ سے سوچے سمجھے بغیر اچانک کوئی بھی کام کر سکتے ہیں جن کا ان کی زندگی پر طویل المیعا داثر ہوسکتا ہے۔رقم خرچ کرنے کے معاملے میں وہ زیادہ سوچ بچار سے کام نہیں لیتے۔وہ اکثر و بیشتر ملا زمتیں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔

Violence Against Women

 

Image

خواتین پر بڑھتا ظلم وتشددسروے کے مطابق

 

 پاکستان میں70% سے زائد خواتین گھریلو تشدد کا شکار
پا ک سر زمین شاد باد تو ہم بہت جوش سے پڑھتے ہیں لیکن اگر ہم خود سے سوال کریں کے ہم نے اس پاک سر زمین کے لئے کیا کیا ہے تو شاید ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔یوں تو ہمارے ملک بھی بہت ہی مسائل ہیں مگر ان سب میں سے ایک بہت بڑا مسئلہ خواتین پر تشددظلم کا ہے۔ اتنے سالوں کی کوششوں کے باوجود اس مسئلے کا کوئی حل سامنے نہیں آتا۔ ہم اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر اس مسئلے پر صرف بات ہی کر سکتے ہیں یہ تو ٹی وی پر ٹاک شوز ہی دیکھ لیتے ہیں لیکن اگر ہر کوئی اپنی اپنی طرف سے کوشش کریں تو شاید اس معاشرے کا کچھ ہو سکتا ہے۔ شخصی آزادی کا تصور ویسے ہی ہمارے معاشرے میں ناپید ہے، لیکن عورتوں کے حقوق کا تو بہت ہی برا حال ہے۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں عورت کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ہر سال عالمی طور پر ماہ دسمبر کا پہلا ہفتہ گھریلو تشدد کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ گھریلو تشدد میں مار پیٹ، زبردستی کی شادی، جسمانی اعضائی تکلیف، خوراک کی عدم فراہمی، ریپ اور بال بمعہ ابرو کاٹ دینا جیسے جرائم شمار کیے جاتے ہیں۔سنہ 2011ءمیں پاکستان کو افغانستان اور کانگو کے بعد خواتین کے لیے دنیا کا بد ترین ملک قرار دیا گیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں جہیز کے مسئلے پر سب سے زیادہ تشدد اور قتل پاکستان میں ہوتے ہیں۔ ایک اور اندازے کے مطابق پاکستان میں 70 فیصد سے زیادہ خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق سال 2011ء میں انہیں ساڑھے آٹھ ہزار (8500) سے زائد شکایات گھریلو تشدد سے متعلق موصول ہوئیں۔ہمارا ملک کاغذی سطح پر تو عورتوں کے حقوق کا داعی نظر آتا ہے، کیونکہ یہاں اسلامی ممالک میں پہلی دفعہ ایک خاتون کو وزیر اعظم کا عہدہ ملا اور اس وقت بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیشتر خواتین بحیثیت ارکان موجود ہیں۔قول اور فعل میں بہر حال کافی فرق ہوتا ہے اور یہ ملک خواتین کے لیے کسی طور بھی محفوظ نہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں کی اسلامی نظریاتی کونسل کا سربراہ دعوی کرتا ہے کہ اسلامی قانون میں زنا بالجبر (ریپ) نامی کسی چیز کا تصور ہی نہیں، جہاں چار اور پانچ سال کی بچیاں انسان نما درندوں کی ہوس کا شکار بنتی ہیں، جہاں ایک تیرہ سالہ بچی کو ریپ کے بعد زندہ قبر میں دفنا دیا جاتا ہے، جہاں خواتین کو گھر سے خریداری کے لیے نکلنے پر چاقوو¿ں اور چھریوں سے زخمی کیا جاتا ہے، جہاں ایک خاوند اپنی بیوی کو تیزاب پینے پر مجبور کرتا ہے، جہاں کے بڑے شہروں سے نوجوان لڑکیوں کی مسخ شدہ لاشیں روز برآمد ہوتی ہیں، جہاں خواتین کو بارش میں نہانے کے جرم میں قتل کر دیا جاتا ہے، جہاں ایک خاتون کو جلانے کے بعد کئی دن کمرے میں قید رکھا جاتا ہے، اور جہاں ’غیرت‘ کے نام پر آئے روز بہنوں اور بیٹیوں کو قتل کیا جاتا ہے۔اس ملک کی آزاد عدلیہ کا یہ حال ہے کہ آج تک غیرت کے قتل کے باعث کوئی ایک مجرم بھی پھانسی نہیں چڑھا اور عدالت خود ’غیرت‘ کے نام پر فیصلے کرتی رہی ہے۔ اس ملک میں ریپ کے دو مشہور ترین واقعات مظفر گڑھ میں مختاراں مائی اور ڈیرہ بگٹی میں ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ پیش آئے۔ دونوں مقدمات میں ملوث ملزم آج کھلے عام پھر رہے ہیں گویا ‘سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد’۔ملکی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آغاز سے ہی خواتین کی آزادی اور حقوق کی بات کرنے والی خواتین پر بے حیائی کے الزامات لگائے گئے۔ اس بات سے کتنے لوگ واقف ہیں کہ لیاقت علی خان پر گولی چلانے والا سید اکبر، رعنا لیاقت علی کے خلاف اخبارات میں خطوط بھیجا کرتا تھا؟اسی طرح ملک کے ابتدائی دنوں میں ہی ملاو¿ں نے بے پردگی اور بے حیائی کے نام پر شور وغل شروع کر دیا تھا۔ خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے کے مسئلے پر حکومت اور ملاو¿ں کے مابین تنازعات عام تھے۔مرد کو عورت سے برتر سمجھنے اور عورت پر ما لک ہونے کی سوچ اس معاشرے کی رگوں میں سرایت کر چکی ہے۔ گھریلو تشدد اسی ذہنیت کی عکاسی کا نام ہے۔اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کے لیے پاس کیے گئے قوانین کبھی اسلامی نظریاتی کونسل کو چبھتے ہیں تو کبھی وفاقی شرعی عدالت کو اور کبھی جماعت اسلامی کی خاتون ارکان اسمبلی اپنی ساتھی خواتین کے حقوق کے خلاف قانون سازی میں مشغول نظر آتی ہیں۔امید کی کرن تو خیر اس ملک میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی لہذا خواتین کے مسائل کم ہونے کے امکانات فی الحال مخدوش ہیں۔ اس ضمن میں ایک قابل قدر کام سندھ اسمبلی نے گھریلو تشدد کے خلاف قانون بنا کر کیا۔ اگر اس قانون پر عمل بھی شروع ہو جائے تو شائد بہار کا بھی کوئی امکان پیدا ہو۔