Inside of Lyari

Image
ہم جب بھی نیوز یا کوی ٹاک شو دیکھتے ہیں تو اکسر لیاری کے بارے میں خوفناک کہانیاں بتائی جاتی ہیں اور دل میں یے کھیال اتا تھا جیسے لیاری ایکالاگ ہی دنیا کا ایک بہت خوفناک شہر ہے۔سہافت میں تو اکھسر ہمیں یے ہی سیکھیا جاتا ہے کے جب ریپورٹینگ کے لئے جاو تو ہر بات بھول کر جاو اور بس یے یاد راکھو کے تم ایک سہافی ہو اور کوچھ نہیں۔لیکن چاہیں ہم کوچھ بھی بن جئے ہم انسان ہیں یے تو بھلنے کی بات نہیں ہے۔ایک انسان کے اس وقت کیا جزبات ہونگے جب وہ ایک دوسرے انسان کا اسکے دھڑ سے الگ کٹا ہوا سر ،کٹے ہوئے ہاتھ، ٹوکڑے ہوئے انسانون کی لاشیں دیکھ کر سب سے پہلے آپ کے دل میں کیا بات ائے گی؟ ان سب سے بعد ہم سرف یاہی سوچتے ہیں کے اکھر کیوں؟ کیا وجہ ہے؟ کون ہے اسکے پیچھے؟ انسانیات کہاں گائی ہے؟ میں نے لیاری اور لیاری کے لوگوں کے بارے میں جتنا سونا تھا اس سے میں وہاں کے بارے میں سعرف بورا ہی سوچ ساکتی تھی، پہلی بار لیاری کے بارے میں کوچ اچھا تب سوننے کو ملا جب میں نے کرن اسکول کے بارے میں t.vپر ایک نیوز پکج دیکھا،ایک ترہا سے یے اسکول لیاری کے بچوں کا مستقبل سوار نے کے لئے اچھی شروات ہے، اور پہلی بار لیاری میں کدم رکھنے پر پتا چلا یہاں بھی بچے گلیوں میں کرکیٹ کھل رہے تھے،بلکول ویسی ہی زندگی جیسی کراچی کے باکی القوں میں دیکھنے میں اتی ہے،جب ہم ڈوکٹر ظفر قادری کے گھر گئے تو وہاں لیاری کی ایک اور حقیقت سامنے ائی اور وہ تھی شیا اور سنیوں کی ایک دوسرے سے لڑائی،ڈوکٹر قادری کے جوڑوا بیٹے جمال اور حیدر اپنے پیپر دینے جا رہے تھے اوراگرا تاج ائریا پر CNGکی لئن میں کھڑے تھے کے اچانک ان پر فائرنگ کردی جس میں حیدر قادری شدید زخمی ہوئے اور جامال قادری موقے پر ہی شہید ہوگئے، شہید جامل قادری کی والدہ کا کہنا ہے وہ اپنے بیٹوں کے لئے انساف چھتہی ہیں مگر شایاد اب اس ملک میں ممکن نہیں ہے انہیں یاقین ہے کے اللہ انکا انساف کاریگا اور کاتلوں کو سزا ضرور ملی گی۔شہید جمال کی والدہ نے ہمیںخون سے لتپت وہ ریجسٹردیکھیا جو شہید جمال اپنے ساتھ پیپر دینے کے لئے لیکر جارہے تھے،اپنے بیٹے کی یاد میں اسکی تسویرے اور باکی کی چیزیں اپنے پاس رکھ کر بیٹھی تھیں اور روتے ہوئے اپنے بیٹے کے بارے میں بتا رہیں تھیں، ایک ماں اس وقت ہمارے سامنے اپنے پیارے بیٹے کے لئے رو رہیں تھیں یے دیکھ کر ہماری جاگا کوئی اور بھی ہوتا تو رو پڑتا۔سیرف یہ ہی نہیں لیاری میں اور نا جانے کتنی ایسے مائیں ہیں جو اپنے بچوں کے لئے اسو بہا رہی ہیں۔ ریپورٹس کے مطابق اس سب کے پیچھے sipaصحابہ طالبان (اس وقت اہلسنت وال جماعت ASWJکے طور پر کام کر رہا ہے)اسے تعلق رکھنےوالے القاعدہ سے منسلک عنسکریت پسندوں دیوبندی کی طرف سے حملہ کر دیا گیا، Election 2013 NA 250 ہمیںلیاری جانا تھا مگر لیاری کا نام سن کر ہی لوگوں کے چہروں پر خوف نظر آتا ہے ، ہماری ٹیم کوچھ کی ہاں تھی لیاری چلنے کے لئے اور کوچھ کا انکار تھا، مگر پانی ٹیم کے لیڈر سے بہت بار ریکوویسٹ کرنے کے بعد وہ مان گئے اور ہم لیاری میں شہید بینظر بھٹو یونیورسٹی میں پولنگ اسٹیشن کی ریپورٹنگ کرنے گئے، وہاں پتا چلا بیلٹ بوکھس اور بیلٹ پیپر نہیں ملے اس وجہ سے پولنگ دیر سے شروع ہوئی ہے،لیاری کے لوگوں سے انکی پسند کے لیڈر کے بار میں سوال کیا اور سب سے ایک ہی جواب ایا کے ہم بینظر کو ووٹ دینگے ضرداری کو نہیں، بینظر نے ہمارے لئے اپنی جان دیے دی ہمارا ووٹ سیرف بینظر کے لئے ہے۔5سال کی حوقومت سے تو سب تنگ اگئے ہیں مگر pppکے سپورٹرز آج بھی ہیںجن کی وجہ سے ہی یہ پارٹی ابھی بھی ہے۔ وہاں سے نکلنے کے بعد ہم پورا لیاری پیدل اسانی سے گمتے رہے مگر پورے کراچی شہر میں سب سے سیف ارئیا اس وقت ہمیں یہی لگ رہا تھا۔جیسے ایک ام دن تھا بچے کرکیٹ کھلتے ہوئے ہر چیز نارمل ساہی تھی نا کسی کو کوئی خوف نا کوچھ اور ، اس دن ہمنے اپنے دلو دماگ سے یہ بات نیکالدی کے لیاری کراچی کی سب سے خطرناک جاگا ہے،کافی کوچھ دیکھا سونا اور سامجھا۔تب سے لیاری کے بارے میں جاننے کا شوک ہوا مجھے جاننا تھا کے کیوں لیاری کراچی کے بدنام لگاوں میں سے ایک مانا جاتا ہے کیا ہے ایسا وہاں پر ، ایسے ہی ہزاروں سوال زیہن میں اتے رہتے لیکن کافی لوگوں کی سلہا تھی کے لیاری سے دور ہی راہو تو اچھا ہے اپنے کام سے کام ہی رکھو تو بہتر ہے ان چیزوں میں پڑنے سے کود کا ہی نخسان ہوتا ہے۔اس سب کے بعد ہمیں کام ملا تھا کے لیاری پر ایک فیچر بننا ہے۔ اور اس دوران مجھے لیاری کے بارے میں اور بھی چیزیں جاننے کا موکا ملا لیاری کی ہسٹری، کیا، کیوں، کب ،کیسے ، کافی کوچھ مالوم ہوا۔مجھے ایک ارٹکل ملا جس سے مجھے یہ سب پتا چلا کہ ان سب کی شروات کیسے ہوئی۔جیسے کے سب کو پتا ہے کہ لیاری کراچی کے سب سے قدیم یلاکوں میں سے ایک ہے، جو کہ تقریبن ایک ملین سے زیادہ ابادی والا یلائکا ہے، پہلے لیاری کو (Dirbo) کہا جاتا تھا، اور پھر کراچی جو گوٹھ کہا جانے لگا تھا، جب وہاں ماہی گیرے رہنے ائے تھے۔ یہ بنیادی طور پر بلوچ نسل کے ماہی گیروں کی طرف سے آباد کیا گیا تھا۔ رہاش گہا بنانے کے لئے لیاری ندی سے جن لوگوں کو ماچھی مینی سے ہٹادیا گیا تھا ین لوگوں نے 1870میں اس جاگا کے لئے دوبارہ کیلم کیا تھا،1964 میں داد محمند شخص جو کے دادل کے نام سے جانا جاتا تھا اور وہ ریگس سینیماں میں کام کرتا تھا، اس نے اپنے بھائی شیرو کے ساتھ مل کر اک چھوٹا سا گیرہو بنایا تھا جو کے گیر قانونی تریکے سے چرس فروخت کرتے تھے، داد محمند ریحمان بلوچ کے والد تھے لوگوں میں ریحمان بلوچ ریحمان ڈاکیت کے نام سے جانا جاتا تھا، بعد میں دادل اور شیرو نے مل کر ایک بڑا گینگ بنیا تھا جس کا نام کالا ناگ رکھا گیا تھا ۔ اسکے کوچ ارسے بعد کالا ناگ گینگ پولیس ایکانٹر میں مارا گیا تھا۔ 1990میں ایک اور گینگ ناگ 2 کے نام سے لیاری میں اےا اور کہا جاتا ہے کے اس گینگ کو پارٹی pppکے کھالید شیہنشا کا سپورٹ تھا، 1990کے درمیان میں رحمان ڈاکیت برائے تاوان سکیم میمن خھرادار علاقے سے ایک تاجر کو اغوا کر لیتے ،اور لالو مفت کے لئے انسان کی رہائی کے لئے رحمان سے پوچھتا لیکن چپکے سے تاوان خود لے لیتا تھا،دو مردوں درمیان تعلقات اس کے بعد ٹوٹ گیا۔بعد میں لالو کے بیٹے ارشد پپو نے کاروباری فیض محمد کو اغوا کر لیا اور اسے مار ڈالا، جو کہ رحمان کا کیزن تھا،فیض کے بیٹے ازہر بلوچ بلاخر رحمان بلوچ کے جانشین بن گئے۔اب لیاری میں تمام متنازع پیپلز امن کیمیٹی (پی اے سی) کے سربرا لالو دبئی سے چلاتے ہیں اور ان کے بیٹے ارشد پپو نے حال ہی میں پولیس کی طرف سے جاری کیا گیا تھا۔دونوں گروہوں کے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ روابطہ کے دعوے! لیکن یہ سب کافی نہیں تھا یہ کہانی تو ابھی ادھوری ہے کوچھ مسنگ ہے ابھی اس میں سے مگر کیا؟ اگر یہ سب سرف ڈرگس اور ایک گینگ کا مسلا تھا تو یہ سب چیریں شیا اور سوننی کی جانگ کیسے بن گئی، اوڑدو،سندھی، پکھتون، پانجابی، پٹھان، ان سب کے بیچ میں جنگ کیسے شروع ہوئی، یہ سب کہاں سے شروع ہوا اور اسکا کیا ہل ہے، تو جواب ملا یے لوگ خود نہیں اٹھے جنگ کے لئے بلکے انکو لاڑویہ جارہا ہے۔ہماری ملک کی سیاسی جماعتوں ،تنزیموں ، اور اجنسیوں نے جیسے اس ملک کو ختم کرنے کا فیسلا کر لیا ہے، ہر جگا بس بھتا خوری، لوٹ مار، ٹارگیٹ کلنگ ، کیڈناپنگ، بوم بلاسٹ، یہی سننے کو ملتا ہے ۔اگر ائسا ہی چلتا رہا تو ایک دن پاکستان بس غوزرے ہوئے کل کی ترہا یاد کیا جائے گا۔پاکستان اس وقت کتنی باڑی موشکل میں ہے یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں۔ مگر اس سے بھی ایک اور باڑی موشکل اس ملک پر انے والی ہے اسکا شیاد کسی کو اندازا بھی نہیں ہے۔

Mera Islam

اس دنیا میں سب سے جذباتی قوم مسلمان ہے اور یہی وجہ ہے کے دوسرے لوگ اس بات کا فائدہ اٹھا تے ہیںمذہب کے نام پر ایک مسلمان سے کچھ بھی کروایا جاسکتا ہے۔گذشتہ سالوں پر نظر دوڑائی جائے تو تقریبا ہر سال ہی پاکستان میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ پیش آتارہتا ہے جس میں کبھی کسی کو مار دیا جاتا ہے کبھی زندہ جلا دیا جاتا ہے تو کبھی گھر جلا دیے جاتے ہیں ۔اور ان سب کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس نے توہین رسالت کی ہے ۔اور یہ سننے کے بعد دوسرے لوگ بھی یہ کہنا شروع ہوجاتے ہیں کے اس کے ساتھ جو ہواصحیح ہوا۔تو کیا ہمارا مذہب ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے۔اس دور میں بھی جب دین اسلام کا نفاذ ہو رہا تھا تب بھی ہمارے پیارے نبی حضورکو بھی بہت کچھ سہنا پڑتا تھا ہندو،کرسٹن،یہودیوں نے انکو بھی بہت اذیتیں دیں مگر وہ کہتے تھے کہ صبرکرو کسی کو جان سے نہیں مارو ہمارا مذہب ہمیں صبر کرنا اور برداشت کرنا ہی سیکھاتا ہے۔کیونکہ مسلمان ایسی قوم ہے جو مذہب کے نام پر جان لے بھی سکتے ہیں اور دے بھی سکتے ہیں۔ہم آج ویسے تو مذہب پر نہیں چل رہے وہ سب احکام بھی پورے نہیں کر رہے جسکا ہمیں حکم دیا گیا ہے ۔ ہم بس وہی کرتے ہیں جو ہمیں لگتا ہے ہے کہ یہ درست ہوگا ۔ ایک طرح ہم مسلمان ہی اسلام کے دشمن بن گئے ہیں ۔پوری دنیا میںمسلمان کو ہی دہشتگرد کیوں سمجھا جاتا ہے کیونکہ دوسرے لوگ مسلمانوں سے دور بھگتے ہیں ؟ کیونکہ ہم نے خودہی اسلام کی غلط تصویردنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ کہیں بھی کچھ ہو تو اسکا ذمہ دار ایک مسلمان ہی ٹہرہ جاتا ہے اسکی کیا وجہ ہے۔کیونکہ ہم مسلمان ہو کر بھی اپنے مذہب کو نہیں سمجھ رہے۔